ذرا ذرا سی بات پر وہ مجھ سے بد گماں رہے
جو رات دن تھے مہرباں وہ اب نہ مہرباں رہے
جدائیوں کی لذتوں کی وسعتیں نہیں رہیں
وہ خوش خیال وصل بن کے میرے درمیاں رہے
پہیلیاں بجھاؤ مت بہانے اب بناؤ مت
یہیں کہیں نہیں تھے تم بتاؤ پھر کہاں رہے
وہ میرے ساتھ کب نہ تھے گلہ کروں جو میں بھلا
ذرا ذرا سی بات کا فضول کیوں بیاں رہے
نہ جھیل کوئی شہر میں تلیا تال بھی نہیں
یہ لشکر پرند پھر بتائیے کہاں رہے
محبتیں مروتیں لحاظ یا خلوص ہو
سبھی ہیں در بدر کہ اب نہ ان کے قدرداں رہے
مسرتوں کی دھوپ ان کے فلیٹ میں ہے رات دن
ہمارے غم کی بستیوں میں کرب جاوداں رہے
ذرا ذرا سی بات پر بچھڑ گیا جو بے سبب
انا و ضد کی کشمکش میں ہم یہاں وہاں رہے
یہ آسماں کی تیرگی نمائشوں کی روشنی
کنولؔ تمہاری راہ میں ہمیشہ کہکشاں رہے