• January 2, 2020

ذرا ذرا سی بات پر وہ مجھ سے بد گماں رہے

ذرا ذرا سی بات پر وہ مجھ سے بد گماں رہے

ذرا ذرا سی بات پر وہ مجھ سے بد گماں رہے 150 150 rorrimradmin

ذرا ذرا سی بات پر وہ مجھ سے بد گماں رہے
جو رات دن تھے مہرباں وہ اب نہ مہرباں رہے

جدائیوں کی لذتوں کی وسعتیں نہیں رہیں
وہ خوش خیال وصل بن کے میرے درمیاں رہے

پہیلیاں بجھاؤ مت بہانے اب بناؤ مت
یہیں کہیں نہیں تھے تم بتاؤ پھر کہاں رہے

وہ میرے ساتھ کب نہ تھے گلہ کروں جو میں بھلا
ذرا ذرا سی بات کا فضول کیوں بیاں رہے

نہ جھیل کوئی شہر میں تلیا تال بھی نہیں
یہ لشکر پرند پھر بتائیے کہاں رہے

محبتیں مروتیں لحاظ یا خلوص ہو
سبھی ہیں در بدر کہ اب نہ ان کے قدرداں رہے

مسرتوں کی دھوپ ان کے فلیٹ میں ہے رات دن
ہمارے غم کی بستیوں میں کرب جاوداں رہے

ذرا ذرا سی بات پر بچھڑ گیا جو بے سبب
انا و ضد کی کشمکش میں ہم یہاں وہاں رہے

یہ آسماں کی تیرگی نمائشوں کی روشنی
کنولؔ تمہاری راہ میں ہمیشہ کہکشاں رہے